سی ٹی ڈی کا ڈرامہ اور عمران حکموت



گزشتہ روز ساہیوال کے علاقے قادر آباد میں ایک واقعہ  پیش آیا کہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی  (سی ٹی ڈی) نے ایک 
کاروائی کی  اور ایک کار میں موجود ادراد کو دہشت گرد گردانتے ہوئے قتل کر دیا ۔ قانون کی زبان میں  اسے ماوارئے عدالت قتل کہتے ہیں۔ ماورئے عدالت قتل کسی بھی سیکیورٹی ادارے کی ساکھ پر ایک کالا  دھبہ ہوتا ہے۔  بہرکیف جونہی یہ معاملہ میڈیا پر آیا اور ہر زبان زدِ عام ہو گیا تو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کہا کہ گاڑی میں موجود افراد دہشت گرد تھے ۔ اگر سی ٹی ڈی کے اسی مؤقف کو تسلیم کر لیا جائے تو  یہ قتل ماورائے عدالت ہے۔اور دوسرے بات، گاڑی میں موجود افراد سی ٹی ڈی کے مطابق جو کہ دہشت گرد ہیں ، نے کسی قسم کی جوابی کاروائی نہیں  کی اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی اسلحہ برآمد ہوا۔ تیسری بات، محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے  اسے "مقابلے" کا نام دیا ، اگر اس بات پر یقین کر لیں کہ جی ہاں یہ ایک مقابلہ ہی تھا تو ماہرین کے علاوہ ایک عام انسان بھی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتا کہ  دہشت گرد سیٹ بیلٹ پہن کر ، خواتین اور بچوں سمیت بغیر ہتھیار کے پولیس یا سی ٹی ڈی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ۔ سی ٹی ڈی نے پہلے ان افراد کو ایک دہشت گرد  تنظیم  داعش کے کارکن قرا ر دیا بعد بیان تبدیل کر لیا اور کہا کہ یہ افراد اغواء کار ہیں۔  سی ٹی ڈی کا مؤقف تھا کہ ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر ٹول پلازے کے پاس سی ٹی ڈی اہلکار نے انہیں رکنے کا  اشارہ کیا تو  سوار افراد نے فائرنگ شروع کر دیا لیکن گاڑی میں سوار افراد سے کسی قسم کا اسلحہ برآمد نہیں ہوا ہے  اور تاحال سی ٹی ڈی نے بھی کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں دکھایا جو گاڑی سے برآمد ہوا ہو۔  لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایک بھی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔  سی ٹی ڈی نے یہ دعویٰ کیا کہ  اغواء شدگان یعنی بچوں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ والدین پر بچوں کو  اغواء کرنے کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔   عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے  گاڑی روکی نہ   تلاشی بلکہ سیدھی فائرنگ کی  بچوں ساتھ لیا اوت چل دیے، جنہیں بعد ازاں ایک  پیٹرول پمپ پر  چھوڑ دیا۔  سی ٹی ڈی  کی پریس ریلیز کے مطابق ، سی ٹی ڈی کی ٹیم نے ایک گاڑی اور  موٹر سائیکل پر سوار دہشت گرودوں کو روکنے کی کوشش کی مگر کسی سی سی ٹی وی فوٹیج موٹر سائیکل سوار دکھائی نہیں دیے نہ بچوں کے بیانات میں کسی موٹرسائیکل کا تذکرہ ہے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق  یہ دہشت گردوں کا ایک بہت بڑا گروپ ہے جو آئی ایس آئی کے  3 افسران اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغواء میں بھی ملوث تھے۔ سی ٹی ڈی کی ساری کہانی تو سمجھ آتی ہے مگر اس سارے معاملے میں آئی ایس آئی گھسیٹنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ 
قارئین کرام، اس سارے معاملے تسلی بخش بات یہ ہے کہ ریاست نے واقعی کوشش کی ہے کہ وہ ایک ماں کا کردار ادا کرے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے  کہا  کہ سرکار  بچوں کی کفالت کی ذمہ دار ہے ، وزیرِ اعظم عمران نے معاملے کا  فوری نوٹس  لیا ، سی ٹی ڈی اہلکاروں زیرِ حراست  لے لیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔ لیکن ماں کا کردار یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتا، موجودہ حکومت کے ضزبے اور اخلاص پر کسی قسم کا   شک  نہیں کیا جا سکتا لیکن اس طرح لے معاملات اور سی ٹی ڈی جیسے ادارے جس کی وجہ سے ہمیشہ ملک و قوم کے لیے  مسائل ہی کھڑے ہوئے  ہیں،کا کوئی مستقل حل کرنا ہو گا۔   اس وقت جب پاکستان دنیا کے اندر ایک اہم ترین کردار ادا کرنے جا رہاہے اور ہمارے اپنے ادارے اس قسم کی حرکتوں میں ملوث پائے جائیں تو نہ صرف پاکستان کے عوام  بلکہ عالمی برادری کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔ عمران حکومت کو سی ٹی ڈی سے متعلق اپنی پالیسی ترتیب دینا  ہو گی۔ وگرنہ یہ قرض بڑھتا چلا جائے گا اور عمران حکومت بھی روایتی پالیستوں اور رویوں کی وجہ ناکام ہو جائے گی۔

Comments

Popular posts from this blog

شاخِ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا نازک ہوگا

Double Game Of India