پاکستان مخالف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ



دنیا اس  وقت غیر یقینی کی کیفیت  سے دوچار ہے۔عالمی حالات بڑا سنگین رخ لے چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہی ہم نے دیکھا  
کس طرح ٹرمپ کی ٹویٹ نے اک لمحے میں ساری صورتحال بدل کر رکھ دی تھی۔اس کے بعد  پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی انا کو آن پہنچی ہے، پاکستان کے اندر بھی  فوری طور پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ جب پاکستان نے بھی امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا  اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں خاطر میں نہ لاتے ہوئے  سپلائی روک دی اور دو ٹوک پیغام دیا کہ  ہمیں امریکی امداد یا آشیر باد کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق واضح مؤقف  اختیار کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اس لئے نہیں لڑ رہا کہ امریکہ کی خوشنودی حاصل ہو سکے، بلکہ پاکستان دنیا کی ایک باوقار اور ذمہ دار قوم ہونے کے ناطے دہشت  گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اس کے بعد  پینٹاگون میں موجود  ایشیاء اور خصوصاً   افغانستان، انڈیا اور پاکستان سے متعلقہ لوگوں کو اس کو بات کا احساس ہو گیا  کہ ان کے اس اقدام انجام کس قدر بھیانک ہو سکتا ہے، فوری طور پر انہیں  " یو ٹرن" لینا پڑا اور وضاحتیں دینے لگے۔لیکن اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا امریکیوں کے لیے یہ بات بالکل ناقابلِ برداشت ہے کہ پاکستان اس طرح ان کے سامنے کھڑا ہو جائے۔
گزشتہ ماہ   اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھارت کا 6 روزہ  طویل دورہ کیا ۔ گزشتہ برس نریندر مودی بھی اسرائیل گئے تھے لیکن 2003 میں ایریل شیرون کے بعد  اسرائیلی وزیرِ اعظم کایہ پہلا دورہ تھا۔نیتن یاہو اپنے 130  رکنی وفد کے ساتھ تشریف لائے، دہلی ائیر پورٹ پر بڑا پرتپاک استقبال ہوا۔ وہ مودی کی آبائی ریاست  گجرات جہاں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے  جاتے  ہیں بھی گئے۔ اس کے  علاوہ  ممبئی ، احمد آباد اور آگرہ بھی گئے۔
قارئین کرام! اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورا  عالمِ کفر اسلام اور پاکستان کے خلاف متحد ہو چکا ہے۔ مشرکین آپس کی تمام تر خلیجیں مٹا کر ایک ہو چکے ہیں۔وہ اسلام کی سر بلندی اور اسلام کی ماننے والوں کے قدم روکنے کے لئے مذہب کی بنیاد پر عقائد کے جھگڑوں پر بھی سمجھوتہ کر چکے ہیں۔اگر ہم گزشتہ دو ہزار سال کی تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین انتہا کی کشیدگی رہی ہے اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ  جہاں بھی عیسائیوں کی حکومت رہی وہاں یہودیوں کی زندگی تنگ رہی ہے یہاں تک کہ وہ انہیں اپنی ریاست سے نکال دیا کرتے تھے۔اس بنیادی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ  یہودیوں نے حضرت عیسیٗ علیہ السلام کو  (نعوذ باللہ) سولی پر چڑھانے کی کوشش کی تھی۔ اس نفرت کی جھلک ہمیں وکٹورین دور کے انگریزی ادب(لٹریچر) میں بھی نظر آتی ہے۔ ولیم شیکسپئر کی مشہورِ زمانہ  تخلیق " مرچنٹ آف  وینس" میں ایک کردار "شائی لاک" اور کرسٹو فر  مارلو کے ڈرامے " جیو آف مالٹا" کا کردار اسی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔  عیسائیوں نے جب سپین پر قبضہ کیا تھا تو انہوں صرف مسلمانوں کو  ہی نہیں باہر نکالا تھا  بلکہ یہودیوں کو بھی نکال پھینکا تھا۔ گزشتہ  دو ہزار سال سے چلی آنے والی کلاسیکل  عیسائیت میں یہودیوں کو عیسائیت کا مسلمانوں سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔  لیکن اب صورتحال مکمل طور تبدیل ہو چکی ہے اب پورے عالم کفر کی ریشہ دیوانیوں کا  دور اسلام اور پاکستان کے گرد گھومتا ہے۔ اب جب کہ عالمی منظرنامہ کچھ یوں ہے امریکہ پاکستان ڈرانے اور دھمکانے ناکام کوششیں کر رہا  اور قبلہ اول بیت المقدس کے تقدس پر بھی ایک وار کیا جا چکا ہے، ان حالات میں اسرائیلی وزیر اعظم کا 6 روزہ  دورہ بھارت تشویشناک ہے۔اس دورہ کو عالمی میڈیا میں  ایک اہم اور تاریخی دورہ گردانا جا رہا تھا۔پاکستان کے خلاف یہ ہندو یہودی گٹھ جوڑ کیا گل کھلائے   گا اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ز وقت ہو گا لیکن   جہاں تک انڈیا اسرائیل تعلقات کا سوال ہے تو دونوں ممالک میں دفاعی شعبوں میں  گہرے روابط ہیں۔ دونوں ممالک میں گزشتہ پچیس برسوں میں  10 اارب ڈالر کے دفاعی ساز و سامان کا سودا ہو چکا ہے ہے۔یہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ  اسرئیلی وزیرِ اعظم نے  ایسے وقت میں یہ دورہ کیا جب انڈیا انہیں دو مرتبہ شدید مایوس کر چکا تھا۔ایک دفعہ اقوامِ متحدہ میں یروشلم کے معاملے پر فلسطین کے حق میں اور اسرئیل کے خلاف ووٹ دے کر، جس کا اپنے تئیں پاکستان میں موجود فلسطین سفیر کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروا کے آزالہ بھی کیا اور دوسرا جب انڈیا نے اچانک نصف  ارب ڈالر  کا معاہدہ مسوخ کر دیا۔ تو اسرئیلی وزیراعظم کا سب سے بڑا  چیلنج انڈیا کے ساتھ مضبوط سٹریٹیجک تعلقات قائم کرنا ہے۔اس دورے کو میڈیا میں بھی بہت اہمیت دی جارہی تھی۔ اس دورے کے دوران
اسرئیلی وزیر اعظم نتین یاہو یہ بیان دیا کہ بھارت کا عالمی طاقت بننا  ہمارے لیے ایک نعمت ہے اور مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے  یہ بھی کہا کہ بھارت کنٹرول لائن پر پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف  کاروائی کرنا ہو گی جن کو اقوامِ متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔اور یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے لہٗذا پاکستان بھی دشمنوں جیسا سلوک بند کرے۔ انہی دنوں نے  میں بھارت کے آرمی چیف جنرل بیپن راوت نے بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ  اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں پاکستان کو گیڈر بھبکی دی اور اسرائیل کو دم چھلا بنتے اور آقا امریکہ کو خوش کرنے کے واسطے  لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔ اس دن سے لے کر تا دمِ تحریر  بھارت روزانہ کی بنیاد  پر لائن آف کنٹرول  پر سیز فائر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جس سے معصوم شہریوں کی جانیں جا رہی ہیں۔بین الاقوامی  سرحدی قوانین کی دھجیاں اڑا  دے ڈالنے کے باوجود عالمی ادارے یوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بلکہ یوں لگ رہا  کہ جیسے بھارت کو  خاص آشیر باد حاصل ہے۔بھارت کے یہ جارحانہ عزائم  خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  بھارتی جارحیت کا آخر مقصد کیا ہے تو اس ضمن میں ہمیں بھارتی  آرمی چیف وہ بیان ضرور ذہن میں رکھنا چاہیئے  کہ  پاکستان کو تکلیف کا احساس دلوانا ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔ اسی لئے  بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کو ئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے بھی واضح طور پر کا ہے کہ امریکہ اور انڈیا ایک ہی مؤقف رکھتے  ہیں۔بہر حال امریکہ اور انڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے باع خطے میں امن کی صورحال شدید متاثر ہو رہی ہے۔ امریکہ اسلام اور پاکستان دشمنی میں جو کام خود نہ کر سکا  وہ اپنے لے پالک اسرائیل اور زر خرید بھارت سے کروانا چاہتا ہے۔اب ہمیں سفارتی اعتبار سے کچھ عملی اقدام کرنے ہونگے ڈپٹی کمشنر کو لائن آف کنٹرول  سیز فائر کی خلاف ورزی پر احتجاجی مراسلہ تھمانے گزارا نہیں ہوگا۔
عزیز طلبا! پاکستان کے سب بڑے نظریاتی دشمنوں بھارت اور اسرائیل کے درمیان جہاں دفاع، سائبر سیکیورٹی، ایئر ٹرانسپوٹ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، تیل اور گیس،سولر تھرمل انرجی اور ہومیو ادویات سازی کے مابین جہاں باقی شعبوں کے استحکام کےلیے  معاہدوں پر دستخط وہاں  فلم  انڈسٹری بہتری اور ترقی کے لیے بھی معاہدے کیے گئے ہیں اور نیتن یاہو نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ بالی ووڈ جیسی فلم انڈسٹری اسرائیل میں بھی ہو۔ آج دشمن میڈیا وار میں اپنے وسائل جھونک رہا ہے تاکہ وہ نوجوان مسلمان نسل کے اذہان و قلوب سے اسلام کی سر بلندی کا جذبہ ختم کر سکے، انہیں دین سے دور اور دنیا کے قریب کر دے۔ہمیں دشمن کی سازشوں کو سمجھ کر اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔ہمیں اپنے حصے کے دیے جلانے ہوں گے۔


Comments

Popular posts from this blog

شاخِ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا نازک ہوگا

سی ٹی ڈی کا ڈرامہ اور عمران حکموت

Double Game Of India