تعلیمی اداروں میں طاؤس و رباب کی محفلیں

کسی بھی قوم کا مستقبل اس قوم کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نوجوا ن نسل کی سوچ اور فکر پر تعلیمی ادارے نسبتاً ذیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے نہ صرف طلبا کی قرآن و سنّت کے مطابق  تربیت کرنے سے قاصر  ہیں بلکہ یہ ادارے طلباء کے لیے دینِ اسلام سے دوری کا سبب بھی بن رہے۔ان اداروں میں پڑھا ئے جانے والے نصاب میں اسلامیات کے نام سے ایک رسمی سی کتاب تو  ضرور موجود ہے مگر وہ اسلام  کا تعارف پیش کرنے سے بھی قاصر ہے۔نتیجتاً ان اداروں سے فارغ ہونے والے طلبا میں دین سے دوری پیدا ہو رہی ہے۔
ملک کے  بڑےکالجز سسٹم میں ایسے پروگرامز کا باقاعدہ انعقاد کروایا جا رہا ہے کہ ان پروگرامز ایک جھلک بھی انسان دیکھ لے تو انسان شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ کسی تعلیمی ادارے کا منظر ہے یا کسی نائٹ کلب کا۔ اس طرح کے پروگرامز اس طرح کے نام دیے جاتے ہیں مثلاً  نایٹ گالا ، میوزکل کنسرٹ اور شرمناک بات تو یہ ہے کہ ان پروگرامز کو سالانہ تعلیمی شیڈول میں باقاعدہ جگہ بھی فراہم کی جاتی ہے۔
پاکستان کے معروف تعلیمی اداروں میں اس قسم کے پروگرامز حال ہی میں منعقد ہوئے جن کو اسی قسم کے نام دیے گیے۔ میوزیکل کنسرٹ(جشنِ  موسیقی) ایک ایسے پروگرام کا نام ہے کہ جس میں کسی معروف گلوکار یا گلوکارہ کو بلایا جاتا ہے اور وہ ادارے میں آ کے پرفارم کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں انتظامیہ( کالج)، شرکاء (طلباء) اور مہمان(مدعو گلوکار) لغویات کا ایسا منظرنامہ پیش کرتے ہیں کہ مومن پریشان ہو جاتا ہے اور شیطان خوشی سے پھول جاتا ہے۔
افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ  اس امر کو گناہ اور برائی بھی تسلیم کیا جاتا بلکہ اگر اس کے خلاف کوئی مزیحمے قائم ہو بھی جائے تو اسے طلباء کا حق قرار دیتے ہوئے ڈھٹائی کامظاہرہ کیا جاتا ہے۔لیکن در حقیقت طلباء کو ان کے اصلی حق سے محروم رکھا جارہا ہو تا ہے۔ قتآن و سنّت کے عین مطابق تربیت طلباء کا حق ہے جس سے انہیں محروم رکھا جا رہا  ہے۔ طل باء کو ان کی اسللامی و قومی اقدار سے روشناس کروایا جائے یہ ان کا حق ہے جس سے انہیں محروم رکھا جا رہا ہے اور صورتحال اس کے بالکل  برعکس ہے۔ بجائے اس بات کے کہ طلباء کو ان کے مقاصد سے روشناس کروایا جائے  اور بجائے اس بات کے کہ طلباء کو ان کی اسلامی و قومی اقدار سے  متعارف کروایا جائے اْنہیں اِن ساری باتوں سے غافل رکھا جا رہا ہے۔
اگر ان تعلیمی اداروں میں منعقد ہونے والے موسیقی اور بے حیائی کا ڈنکا بجانے والے پروگراموں کا بغور مشاہدہ  کیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کفریہ قوتوں کی جانب سے     پاکستان کی روحانی و نظریاتی اساس پر یلغار ہے اور المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا نوجوان اس بات سے بھی عاری ہے کہ اسے کس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ذہنی طور پر غلام بنایا جا رہاہے۔ نسلِ نو کو نظریہ پاکستان کے متعلق آگاہی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔دو قومی نظریے کو موجودہ دور میں غیر متعلقہ قرار دے کر اس میں شک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سنجیدہ حلقوں کو "مشترکہ کلچر" کے نام سے متعارف کروایا جا رہا ہے۔
یاد رکھیے! دنیا میں قومیں مشترکہ دشمن کی بنیاد پر بنتی ہیں ، تاریخ اس بات پے مہر ثابت کرتی ہے۔جو قومیں اپنے سشمنوں اور مقاصد کو بھلا دیتی ہیں وہ صفحہ  ہستی پر اپنا وجود ذیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ پاتیں۔
قارئین کرام!اس فکری و نظریاتی یلغار کے نتیجے میں صورتحال یہ بن گئی ہے کہ  آج ہمارا نو جوان اس قدر احساسِ کمتری کا شکار ہے کہ  وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو مغربی ثقافت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اور تعلیمی اداروں میں رئج مغربی نظامِ تعلیم اور  مغربی ثقافت کا بڑھتا ہوا رجحان  اس میں معاون اور مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ہمارا نوجوان یہ بھول چکا ہے کہ اس کی شان و شوکت اور مقام و مرتبہ اس  سے کہیں ذیادہ بلند و بالا  ہے۔کس قدر افسوسناک  بات ہے کہ وہ نوجوان کہ جس سے امتِ مسلمہ کے ہر اک فرد کی امیدیں  وابستہ ہیں ، جس نے فتنوں  کے اس سمندر میں  ہچکولے کھاتی امت کی کشتی  کو پار لگانا ہے اور امت کے روشن مستقبل کے لیے کردار بھی پیش کرنا ہے آج وہ مغرب کے جال میں بآسانی پھنس چکا ہے۔یہ کتنی ذلت آمیز بات ہے کہ جسمانی طور آزادی حاصل کر لینے کے بعد بھی  ذہنی غلامی اور پسماندگی کا   شکا ر ہیں۔دشمنانِ اسلام ، پاکستان کے تعلیمی اداروں پر قابض ہو کر  نسلِ نو کے افکار اور نظریات کو اسلام سے دور کر کے اور حصولِ پاکستان کا مقصد بھلا کر در حقیقت ایک ایسی  نسل تیار کرنا چاہتے ہیں  جو کہ آگے چل کر مستقبل میں ان کے مدِ مقابل آ ہی نہ سکے، جو ان کے نظریات کی آبیاری تو کرے مگر وہ اسلام اور پاکستان کے دفاع اور استحکام کے لیے کردار اور عمل پیش کرنے سے قاصر ہو۔
وقت کا تقاضا تو یہ تھا  کہ وطنِ عزیز پاکستان اس وقت جن  نازک حالات سے  گزر  رہا ہے، ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے طلبا کو مثبت کردار  کے لیے تیار کیا جاتا۔ جنت نظیر وادئ کشمیر لہولہان ہے، سرحد پر بھارت کی جانب سے مسلسل جارحیت ہے۔ ایسے میں اگر تعلیمی اداروں کے اکابرین اگر کچھ سوچتے تو طلبا کو ملک و ملت کی تعمیر کے جذبوں سے سرشار کرتے، مختلف سیمینارز اور ورکشاپس کے ذریعے  پاکستان کی اہمیت اور دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے۔ ان کو  فرسٹ ایڈ، این سی سی،سول ڈیفنس اور سکاؤٹنگ کی تربیت سی جاتی۔ان میں حب الوطنی کے جذبات اجاگر کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے بہتر استعمال پر آمادہ کیا جاتا۔ مگر افسوس انہیں طاؤس و رباب کی دلدل میں بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا تفریح کے نام ہر  ایسے پروگرامز ہی باقی ہیں جن سے ملک وملت کا جذبہ ہی طلبا کی روح سے نکال لیا جائے۔ کیا ان اداروں کے ذمہ دار ان دولت کے لالچ میں نابینا ہو چکے ہیں  کہ انہوں نے نسلِ نو کے سفلی جذبات کو اجاگر کرنے کو ہی تفریح جانا۔

پاکستان میں حالیہ بڑھتی ہوئی   فحاشی و عریانی میں  ایک بہت بڑا ہاتھ تعلیمی اداروں میں سجنے والے موسیقی کے ان پروگرامز کا بھی ہے۔ جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔اس بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے ماحول کے خاتمے کے لئے پاکستان کے تعلیمی اداروں کو کلیدی کردار ادا  کرنا ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

شاخِ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا نازک ہوگا

سی ٹی ڈی کا ڈرامہ اور عمران حکموت

Double Game Of India